بارش
میں یہ سوچ کر اس کے در سے اٹھا تھا
کہ وہ روک لے گی ، منا لے گی مجھ کو
ہواؤں میں لہراتا آتا تھا دامن
کہ دامن پکڑ کر بٹھا لے گی مجھ کو
قدم ایسے انداز سے اٹھ رہے تھے
کہ آواز دے کر بلا لے گی مجھ کو
مگر اس نے روکا نہ اس نے منایا
نہ دامن ہی پکڑا نہ مجھ کو بٹھایا
نہ آواز ہی دی نہ واپس بلایا
میں آہستہ آہستہ بڑھتا ہی آیا
یہاں تک کہ اس سے جدا ہو گیا میں
جدا ہو گیا میں ، جدا ہو گیا میں